Press release
Children, mine workers still vulnerable in Balochistan in 2018
Quetta, 22 August 2019. At the provincial launch of its flagship annual report, State of Human Rights in 2018, the Human Rights Commission of Pakistan (HRCP) notes that, in a year of general elections, it was perhaps inevitable that the progress and observation of human rights issues might be suspended, if not forgotten altogether. The elections themselves were plagued by allegations of pre-poll manipulation and vote rigging as well as some appalling outbreaks of violence, notably in Mastung and Quetta, which left at least 180 people dead.
The report notes that sectarian violence in Balochistan has disproportionately targeted the Shia Hazara community. In Quetta, they remain confined to Hazara areas: their movement is restricted as is their access to markets and schools. The state’s response has been to establish security convoys that accompany members of the community when they leave Hazara areas, but this does not guarantee their security and is, arguably, a short-term solution to sectarian violence in the province.
Citing the Baloch Human Rights Organisation and Human Rights Council of Balochistan, HRCP’s report states that at least 541 partial reports of enforced disappearance had surfaced in 2018. In August 2018, the chairman of the Commission of Inquiry on Enforced Disappearances said that ‘merely 131 cases’ of missing persons in Balochistan were being heard. The lack of more comprehensive official data on enforced disappearances – and the Balochistan media’s apparent powerlessness to report on these – is a poor reflection on the state’s political will to eliminate this searing problem.
The report also notes that malnutrition is still a serious threat to children’s health in the province, to the extent that a nutrition emergency was declared in Balochistan in November 2018 by the provincial health minister. While a Nutrition Cell was established to address chronic malnutrition, the state must prioritise and sustain its efforts to protect one of Balochistan’s most vulnerable segments.
Highlighting the alarming frequency of mining accidents in Balochistan, HRCP’s report documents at least three major accidents in 2018, in which at least 57 miners were killed in 2018 alone. It also points out that, in September, the Supreme Court asked the Balochistan government to file a reply on a petition moved to highlight the deaths of over 300 mine workers since 2010. Despite this, there has been no concerted effort to monitor and enforce occupational health and safety in Balochistan’s mines.
Dr Mehdi Hasan
Chairperson
پریس ریلیز
2018ء میں، بلوچستان میں بچے، کان کُن اب بھی غیر محفوظ
پاکستن کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے اپنی سالانہ رپورٹ، انسانی حقوق کی صورتحال 2018ء، کی صوبائی تقریب رونمائی کےموقع پر اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ عام انتخابات والےبرس اگر انسانی حقوق کے معاملات پر پیش رفت اور ان کے تحفظ کو مکمل طور پر پسِ پشت نیہں بھی ڈالا گیا تو انہیں تعطل کا شکار ضرور کیا گیا۔ انتخابات بذات خود قبل از انتخاب ہونے والی ساز باز اور ووٹوں کی دھاندلی جیسے الزامات، جن کا مکمل ازالہ نہیں ہوسکا نیز تشدد کے بعض خوفناک واقعات کی لیپیٹ میں رہے، خاص طورپر مستونگ اور کوئٹہ میں، جن میں کم از کم 180 افراد ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد میں غیر متناسب طور پر شیعہ ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا۔ کوئٹہ میں، وہ ہزارہ علاقوں تک محدود ہیں؛ ان کی نقل و حرکت کےعلاوہ بازاروں اور اسکولوں تک رسائی محدود ہے۔ ریاست نے اس حوالےسے جو اقدامات کیے ہیں وہ سکیورٹی قافلوں کا قیام ہےجن میں برادری کے لوگوں کو لے جایا جاتا ہے جب وہ ہزارہ علاقوں سے باہر نکلتے ہیں، لیکن یہ اقدام ان کی سیکیورٹی کی ضمانت نہیں دیتا اور یہ صوبے میں جاری فرقہ وارانہ تشدد کا قلیل المدت حل ہے۔
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن اور بلوچستان انسانی حقوق کونسل کا حوالہ دیتے ہوئے، ایچ آر سی پی کی رپورٹ کہتی ہے کہ 2018ء میں جبری گمشدگیوں کی کم از کم 541 جزوی اطلاعات سامنے آئیں۔ اگست 2018ء میں، جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن نے کہا کہ ‘بلوچستان میں لاپتا افراد کے’محض 131’ مقدمات زیر سماعت تھے۔ جبری گمشدگیوں پر جامع اعدادوشمار کی کمی—اور بلوچستان میں میڈیا کے پاس ان واقعات کی رپورٹنگ کا بظاہر اختیار نہ ہونا– اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ریاست اس سنگین مسئلے کے حل کا سیاسی عزم نہیں رکھتی۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غذائیت کی کمی صوبے کے بچوں کی صحت کے لیے اب بھی ایک سنگین خطرہ ہے جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ نومبر 2018ء میں صوبائی وزیر صحت نے بلوچستان میں غذائی ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ اگرچہ درینہ غذائیت کی کمی پر قابو پانے کے لیے ایک نیوٹریشن سیل قائم کیا گیا تھا، ریاست کو بلوچستان کے غیرمحفوظ ترین گروہوں میں سے ایک کے تحفظ کے حوالے سے اپنے اقدامات کو ترجیح دینا ہوگی اور ان میں استحکام لانا ہوگا۔
بلوچستان میں کانوں کے حادثات میں خطرناک اضافے کی نشاندہی کرتے ہوئے، ایچ آر سی پی کی رپورٹ نے صرف 2018ء میں کم از کم تین بڑے حادثات ریکارڈ کیے ہیں جن میں کم از کم 57 کان کُن ہلاک ہوئے۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ ستمبر میں سپریم کورٹ نے بلوچستان حکومت کو ایک پٹیشن کا جواب جمع کرانے کو کہا تھا۔ اس پٹیشن میں 2010ء سے اب تک 300 سے زائد کان کُنوں کی اموات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس کے باوجود، بلوچستان کی کانوں میں پیشہ ورانہ صحت اور تحفظ کی نگرانی اور نفاذ کے لیے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔
ڈاکٹرمہدی حسن
چیئرپرسن
_______________________________________________
Human Rights Commission of Pakistan (HRCP)
107 Tipu Block, New Garden Town, Lahore 54600
Phone: (92-42) 3584 5969 Fax: (92-42) 3588 3582
Email: [email protected]
***
For a PDF version of this press release, click here